Add To collaction

لیکھنی کہانی -12-Oct-2023

فوجِ غم کی برابر چڑھائی ہے دافعِ غم تمہاری دُہائی ہے عمر کھیلوں میں ہم نے گنوائی ہے عمر بھر کی یہی تو کمائی ہے تم نے کب بات کوئی نَبَرائی ہے تم سے جو آرزو کی بَر آئی ہے تم سے ہر دَم اُمیدِ بھلائی ہے مَیٹ دیجئے جو ہم میں بُرائی ہے تم نے کب آنکھ ہم کو دکھائی ہے تم نے کب آنکھ ہم سے پھرائی ہے تم کو عالم کا مالک کیا اس نے جس کی مملوک ساری خدائی ہے کس کے قبضے میں ہیں یہ زمین و زماں کس کے قبضے میں پیارے خدائی ہے تو خدا کا ہوا اور خدا تیرا تیرے قبضے میں ساری خدائی ہے جب خدا خود تمہارا ہوا تو پھر کون سی چیز ہے جو پرائی ہے سب صفاتِ خدا کے ہو تم مَظہَر ایک قابو سے باہر خدائی ہے تاج رکھا ترے سر رَفَعْنَا کا کس قدر تیری عزت بڑھائی ہے اَنبیا کو رَسائی ملی تم تک بس تمہاری خدا تک رَسائی ہے اَز زمیں تا فلک جن و اِنس و مَلک جس کو دیکھو تمہارا فدائی ہے رَشکِ سلطان ہے وہ گدا جس نے تیرے کوچہ میں دُھونی رَمائی ہے میری تقدیر کردو بھلی تم نے قدرتِ محو و اِثبات پائی ہے میرا بیڑا کنارے لگے پیارے نوح کی ناؤ کس نے ترائی ہے آگ کو باغ کس نے کیا پیارے تم نے تم نے ہی قدرت یہ پائی ہے میرے دل کی لگی بھی بجھا دیجئے نارِ نمرود کس نے بجھائی ہے شرر اَفشانیاں کس کی ہیں عشق کی آگ سینے میں جس نے لگائی ہے کاش وہ حشر کے دن کہیں مجھ سے نارِ دوزخ سے تجھ کو رِہائی ہے خوشبوئے زُلف سے کوچے مہکے ہیں کیسے پھولوں میں شاہا بسائی ہے پیارے خوشبو تمہارے پسینے کی خلد کے پھولوں سے بھی سوائی ہے بات وہ عطرِ فردوس میں بھی نہیں تیرے ملبوس نے جو ُسنگھائی ہے اس رضا پر ہو مولیٰ رضائے حق راہ جس نے تمہاری جلائی ہے ناخدا باخدا آؤ بہرِ خدا میری کشتی تباہی میں آئی ہے ہیں یہ صدمے تری ہی فرقت کے روز اَفزوں یہ دردِ جدائی ہے طیبہ جاؤں وہاں سے نہ واپس آؤں میرے جی میں تو اب یہ سمائی ہے مررہا ہوں تم آجاؤ جی اُٹھوں شربتِ دِید میری دَوائی ہے شوقِ دِیدارِ نوری میں اے نوریؔ رُوح کھنچ کر اب آنکھوں میں آئی ہے

   1
0 Comments